Sunday, May 21, 2017

زیادہ ذہین ہونے کی آٹھ نشانیاں


پہلی نشانی ہے بہت زیادہ سوچنا۔ جو انسان بہت زیادہ سوچ بچار کرتا ہے اور خلا میں گھورتا رہتا ہے وہ پاگل اور بے حد ذہین ہوتا ہے۔ آئن سٹائن نے ایک دفعہ فارغ بیٹھ کر سوچنے کی اہمیت کے بارے میں بولا کہ اگر مجھے صرف ایک گھنٹے میں پوری دنیا کو بچانا پڑ جائے تو یقین کریں کہ میں 55منٹ بیٹھ کر سوچوں گا اور صرف پانچ منٹ اصل میں عمل کروں گا۔ زیادہ ذہین لوگ صبح صادق بیدار ہوتے ہیں۔ مشکل ہے کہ کبھی سات بجے کے بعد بیدار ہوں۔ ارنیسٹ ھیمنگ وے بہت مشہور شاعر تھا
وہ صبح چھ بجے بیٹھ کر اپنی نظمیں تحریر کرتا تھا۔ اس کی تمام نامور نظمیں صبح صبح کی آمد کا نتیجہ ہیں۔یہ لوگ دوسرے لوگوں سے ملنا جلنا اور ان سے بے جا گھلنے ملنے کو معیوب تصور کرتے ہیں۔ صرف شام کے اوقات میں کبھی کبھار لوگوں سے ملتے ہیں۔ ان کو تنہائی اور خلوت لذت دیتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جینیس لوگ ہمیشہ بہت زیادہ واک اور چہل قدمی کرتے تھے۔ بیٹ ہو ون اور مہلر ہر روز دو سے تین گھنٹے واک کرتے تھے۔ جینیس لوگ روز کی ایک سادی روٹین پر عمل کرتے ہیں کیونکہ اس سے ان کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ ایک ذہین انسان صرف تب تک اپنا دماغ ہوشیاری سے استعمال کر سکتا ہے جب تک اس کو یہ یقین ہو کہ اس کے کسی کام میں کوئی خلل نہیں پیدا ہو گا۔ یہ لوگ عموماً روز ایک ہی روٹین فالو کرتے ہیں۔ ان کو دماغی تسلی درکار ہوتی ہے کہ ان کا اپنی زندگی پر پورا کنٹرول ہے۔جیسے ٹولز ٹوئے ہمیشہ اپنے دن کی روٹین کو تحریر کر لیا کرتا تھا۔ جینیس لوگ ڈائری رکھنا پسند کرتے تھے۔ گاندھی، موزارٹ اور ڈا ونچی تینوں اپنی ذاتی ڈائریاں رکھتے تھے اور اپنی ذاتی باتیں اور تمام تر راز اس ڈائری میں تحریر کرتے تھے۔ یہ لوگ ذہنی یکسوئی کے بادشاہ ہوتے ہیں اور ان کو کسی بھی جگہ کسی بھی وقت بٹھا دو تو اپنا کام بخوبی جاری رکھ سکتے ہیں۔’ اگاتھا کرسٹی ‘کو صرف ایک ٹائپ رائٹر مل جاتا تھا تو کہیں بھی بیٹھ کر مسلسل لکھتی جاتی تھی۔ آج اس کی تحریریں ہم سب گوگل کر کے اور نصاب میں پڑھتے ہیں۔کسی بھی عام انسان اور ذہانت کے شہنشاہ میں سب سے بڑا فرق ان کی دماغی آئیڈیاز کا ہے۔ عام انسان کام تب بند کرتا ہے جب اس کا دماغ پک جائے یا اس کی تخلیقی صلاحیت جواب دیدے مگر ایک جینیس ہمیشہ کام بیچ میں چھوڑ دیتا ہے۔وہ کام اس وقت چھوڑتا ہے جب اس کے دماغ میں اگلا آئیڈیا آجائے۔ اس کا دماغ کبھی انوکھے خیالات سے خالی نہیں ہوتا بلکہ چوبیس گھنٹے ادھر ادھر پرواز کرتا رہتا ہے۔ موزارٹ دن میں بارہ گھنٹے میوزک لیسن سنتا تھا اور کانسرٹ سے لطف اندوز ہوتا تھا اور بمشکل چھ گھنٹے سو پاتا تھا۔ ان کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے کہ انفرادی آزادی کسی طرح مفقود نہ ہونے پائے۔ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتے ہیں اور عموماً اس کے عادی ہوتے ہیں۔ذہین لوگ زیادہ تر بہت مزاحیہ ہوتے ہیں اور اپنے ارد گرد سلیقے اور صفائی کو بہت زیادہ پسند نہیں کرتے۔ان کے لیے دنیا اور اس کی قبولیت اتنی اہم نہیں ہوتی۔ ان کو لوگوں کی باتوں سے بہت کم فرق پڑتا ہے۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہدف با آسانی حاصل کر لیتے ہیں اور باقی لوگوں کی طرح یہ نہیں سوچتے کہ سٹائل اور طریقہ کار مینو ئل کے مطابق کرنا ہے۔ وہ بہت آگے کے مناظر دیکھ سکتے ہیں اور طریقہ کار ان کے لیے ہرگز اہم نہیں ہوتا۔جب وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو عام لوگ حیرت کا شکار ہوجاتے ہیں کہ وہ تو ٹھیک سے کام بھی نہیں کر رہے تھے تو وہ اپنا مقصد کیسے حاصل کر بیٹھے۔ یہ بہت حساس ہوتے ہیں اور چاہے دوسرے کی مدد کریں یا نہیں، یہ شکل دیکھ کر اگلے کے حالات اور سوچ پڑھ لیتے ہیں۔ ان کو لوگوں سے گھلنا ملنا نا پسند ہوتا ہے مگر یہ دوسرے لوگوں کو مصیبت میں دیکھ کر بہت وقت اداس رہتے ہیں

"ب" سے بچ کر رہنا


ہمارے گھر کے کچھ دور ایک نجومی صاحب نے ڈیرا جما رکھا تھا۔ ایک روز میں نے سوچا کہ ان سے اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھنا چاہیے۔ چنانچہ میں ان کے پاس گیا۔ انہوں نے میرا ہاتھ دیکھا اور فرمانے لگے، "زندگی میں ہمیشہ "ب" سے بچ کر رہنا۔ مطلب یہ کہ اگر تمہیں زندگی پیاری ہے تو "ب" سے شروع ہونے والی چیزوں سے بچنا۔"
یہ سن کر میرا سر چکرانے لگا اور پہلی دفعہ دن میں تارے نظر آنے کا مطلب سمجھ آیا۔
میں وہاں سے کسی نہ کسی طرح اٹھا اور گھر آ کر "بستر" کے بجائے فرش پر لیٹ گیا۔ امّی نے دیکھا تو کہا، "بیٹا! کیا ہوا؟"
"کچھ نہیں امّی! وہ ذرا سر چکرا رہا ہے اور ہاں برائے مہربانی مجھے بیٹا نہ کہیے گا۔"
"لیکن کیوں؟ کیا تم میرے بیٹے نہیں ہو؟" امّی نے حیرت سے کہا۔
"ہوں تو، لیکن مجھے لڑکا کہیے۔" میں نے ہاتھ جوڑتے ہوے کہا۔ ابھی میری اور امّی کی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ باجی کالج سے آ گئیں۔ ان کا موڈ خراب تھا۔ مجھے دیکھتے ہی برس پڑیں، "ارے! یہ تم فرش پر کیوں لیٹے ہو؟"
"بس آپا! ذرا گرمی لگ رہی تھی۔" میں نے بہانہ بنایا۔
"ایں! اسے کیا ہو گیا؟ یہ مجھے باجی سے آپا کہہ رہا ہے؟" انہوں نے غصے سے کہا۔
بہرحال، میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا، کیوں کہ "بیٹھنا" تو میرے نصیب میں نہ تھا۔ پھر امّی سے پوچھا، "امّی! آج کیا پکایا ہے؟"
انہوں نے کہا، "بھنڈی اور بکرے کا گوشت۔"
یہ سن کر مجھے رونا آ گیا۔ "ب" والی چیز کھانا تو دور کی بات، میں انہیں دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ خیر جناب! میں ہوٹل میں آ گیا اور دو سموسوں کا آرڈر دیا۔ بیرا سموسے رکھ کر چلا گیا۔ میرے ساتھ میز پر بیٹھا ایک شخص "برفی" کھا رہا تھا۔ اسے دیکھ کر میرا دماغ خراب ہو گیا اور میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔
مہینے کی "بارہ" "بیس" اور "بائیس" تاریخیں میرے لیے منحوس تھیں۔ دن میں جب بھی "بارہ" بجتے دل میں ایک ہول سا اٹھنے لگتا۔ "بادام" کی آئس کریم تو میری جان کی دشمن ہو گئی۔ ہفتے میں "بدھ" کے دن محتاط رہنا پڑتا کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آ جائے۔ کتابوں کو اب "بستے" کے بجائے ہاتھوں میں لے جانے لگا۔ اب تو "بس" میں جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ روز پیدل ہی اسکول جاتا تھا۔
سر کے "بال" جو مجھے بےحد عزیز تھے ناچار منڈوانے پڑے۔ کچھ دن پہلے ابّو نے ایک "بیکری" خریدی تھی۔ شام کے وقت وہاں بیٹھتا تھا، لیکن اب میں نے ابّو سے صاف کہہ دیا کہ مجھے معاف کر دیں، میں بیکری پر نہیں بیٹھ سکتا۔

"بقر عید" کے دنوں میں ہر طرف "بکروں" کو دیکھ کر مجھے سانس اوپر نیچے ہوتا محسوس ہوا۔ "بلال" اور "باسط" جیسے دوستوں سے دوستی چھوڑنی پڑی۔
کوئی "باتونی" شخص آ جاتا تو گھبراہٹ سی ہونے لگتی اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ "برسات" جیسے موسم سے الجھن ہونے لگتی۔ "بارش" سے اب جان کے لالے پڑ گئے۔ "بلّی" بھی جان کی دشمن ہو گئی۔
انہی دنوں میرے دوست "بابر" کی شادی تھی۔ لازمی بات ہے "برات" بھی جانی تھی اور وہ بھی "بہاول پور"۔ ابّو نے کہا، "بیٹا! تم بہت دنوں سے کہیں نہیں گئے۔ "بابر" تمہارا دوست بھی ہے۔ چلے جاؤ۔"
اب میں ابّو کو کیا بتاتا کہ وہاں تو اتنی سارے "ب" جمع ہیں۔ بھلا آپ ہی بتائیے کہ اتنی بہت سی "ب" کے درمیان میں کیسے زندہ رہ سکتا تھا۔
"بدھ" کے روز امّی نے "بکرے" کی "بریانی" پکائی۔ "بریانی" دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا، کیوں کہ بریانی مجھے بہت پسند ہے۔ اب تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔ نجومی کو جا کر گردن سے پکڑ لیا کہ یہ تم نے کیسی مصیبت میں پھنسا دیا ہے۔ اس نے کہا، "ارے بھئی! غلطی ہو گئی۔ تمہارے ستارے کہتے ہیں "ن" سے پرہیز کرنا ہے۔
....اب آپ بتائیے میں کیا کروں

رزق



حضرت سلیمان علیہ السلام نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی نگاہ ایک چیونٹی پر پڑی جو گیہوں کا ایک دانہ لے کر نہر کی طرف جارہی تھی‘ حضرت سلیما ن علیہ السلام اس کو بہت غور سے دیکھنے لگے‘ جب چیونٹی پانی کے قریب پہنچی تواچانک ایک مینڈ ک نے اپنا سر پانی سے نکالا اور اپنا منہ کھولا تو یہ چیونٹی اپنے دانہ کے ساتھ اس کے منہ میں چلی گئی‘ مینڈک پانی میں داخل ہو گیا اور پانی ہی میں بہت دیر تک رہا‘سلیمان علیہ السلام اس کو بہت غور سے دیکھتے رہے‘ذرا ہی دیر
مینڈک پانی سے نکلا اور اپنا منہ کھولا تو چیونٹی باہر نکلی البتہ اس کے ساتھ دانہ نہ تھا‘حضرت سلیمان علیہ السلام نے ا س کو بلا کر معلوم کیا کہ ”ماجرہ کیاتھا اور وہ کہاں گئی تھی“ اس نے بتایا کہ اے اللہ کے نبی آپ جو نہر کی تہہ میں ایک بڑا کھوکھلا پتھر دیکھ رہے ہیں‘ اس کے اندر بہت سے اندھے کیڑے مکوڑے ہیں‘اللہ تعالیٰ نے ان کو وہاں پر پیدا کیا ہے‘ وہ وہا ں سے روزی تلاش کرنے کے لیے نہیں نکل سکتے‘ اللہ تعالی نے مجھے اس کی روزی کا وکیل بنایا ہے‘ میں اس کی روزی کو اٹھا کر لے جاتی ہو ں اور اللہ نے اس مینڈک کو میرے لیے مسخر کیا ہے تاکہ وہ مجھے لے کر جائے‘ اس کے منہ میں ہونے کی وجہ سے پانی مجھے نقصان نہیں پہنچاتا، وہ اپنا منہ بند پتھر کے سوراخ کے سامنے کھول دیتا ہے‘ میں اس میں داخل ہو جاتی ہوں‘ جب میں اس کی روزی اس تک پہنچا کر پتھر کے سوراخ سے اس کے منہ تک آتی ہوں تو مینڈک مجھے منہ سے باہر نکال دیتا ہے‘حضرت سلیما ن علیہ السلام نے کہا ”کیا تو نے ان کیڑوں کی کسی تسبیح کو سنا“ چیونٹی نے بتایا‘ہاں! وہ سب کہتے ہیں‘اے وہ ذات جو مجھے اس گہرے پانی کے اندر بھی نہیں بھولتا۔یہ حکایت بتاتی ہے کہ روزق کا غم نہ کھائیے‘ اللہ نے رزق کا وعدہ کیا ہے‘ جو اللہ رب العزت نے آپ کے مقدر میں لکھا ہے وہ آپ کو ضرور ملے گا‘ بس اپنی محنت‘ صبر اورایمانداری سے اس رزق کو حاصل کیجئے

برداشت


حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ بغداد کی حدود سے نکلے ہی تھے کہ اچانک بادشاہ کا بیٹا بیمار پڑ گیا اور دوسرے دن مر گیا. بادشاہ کو گمان گزرا شاید یہ سب واقعہ حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ سے بدسلوکی کی وجہ سے رونما ہوا ہے۔ بادشاہ نے اپنے مشیران کو حکم دیام، کوئی بھی صورت ہو انہیں بغداد واپس لاو۔حکم پاتے ہی مشیران تیز گھوڑوں پر سوار ہو کر دوڑ پڑے. شاہی قاصدوں نے انھیں جا لیا پھر دست بدست عرض کی حضور واپس بغداد تشریف لے چلیں۔یہ سن کر حضرت شمس رحمتہ اللہ علیہ کے چہرے
اذیت کا رنگ ابھر آیا کل جس جگہ مجھے ذلیل کیا گیا آج پھر اسی مقام پر جانے کا کہ رہے ہو؟؟؟؟ حضرت شمس رحمتہاللہ علیہ نے انکار کر دیا لیکن شاھی کارندے بہت دیر تک عاجزی کا مظاہرہ کرتے رہے تو آپ کو ان پر رحم آ گیاجب آپ شاھی محل پہنچے وہاں صف ماتم بچھی ہوئی تھی یہ سب کیا ہے آپ نے بادشاہ سے پوچھا،یہ میرے جواں مرگ بیٹے کی میت ہے آپ کے بغداد سے جاتے ہی اچانک بیمار ہوا اور دیکھتے ھی دیکھتے آغوش فنا میں چلا گیا۔میں سمجھتا ھوں آپ کی دل آزاری کے باعث میرا بیٹا اس انجام کو پہنچا. شدت غم سے بادشاہ کی آواز کانپ رہی تھی۔فی الواقع اگر یہی بات ہے تو آپ کے بیٹے کو سزا کیوں ملی؟؟؟ گناہ تو آپ نے کیا تھا. حضرت شمس نے فرمایا۔ ممکن ہے قدرت نے. میرے لیے یہی سزا منتخب کی ھو کہ تمام عمر بیٹے کی جدائی میں تڑپتا رہوں. بادشاہ نے کہا.میری درخواست ھے کہ آپ میرے بیٹے کے حق میں دعائے خیر فرما دیں. بادشاہ نے کہا ھو سکتا ھے آپ کی دعاؤں سے اسے نئی زندگی مل جائے.ایسا ھوتا تو نہیں ھے پھر بھی تمہاری تالیف قلب کے لیے مالک کی بارگاہ میں عرض کیے دیتا ھوں.ایوان شاھی کے ایک کمرے میں ابھی دعا کے الفاظ کی گونج باقی ھی تھی کہ شہزادے کے جسم کو جنبش ہو ئی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور حیرت زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا،یہ منظر دیکھ کر بادشاہ حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں میں گر گیا کہ یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ھے۔ ھرگز نہیں یہ تو قادر مطلق کی کرم نوازی کا ادنی سا مظاہرہ ہے جو اپنی ذات میں لاشریک ھے اسی کا شکر ادا کرو.آپ رح نے فرمایا.یہی کرامت آپ کے لیے وبال جان بن گئی. لوگوں نے آپکو شعبدے باز کہا اور آپ کے خلاف صف آراء ہوگئے،حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ کی کھال کھینچ لی گئی اسی حالت میں بغداد سے نکال دیا جب آپ لہو لہان تھے،ولی عہد سلطنت شہزاد محمد کو آپ سے بہت عقیدت تھی جب آپ شہر بدر ھوئے تو شہزاد محمد بھی آپ کے ساتھ ھو لیے.بغداد سے نکل کرہندوستان کا رخ کیا اور طویل مسافت کے بعد ملتان پہنچے اور سکونت اختیار کی۔ملتان کے لوگوں نے بھی اہل بغداد کی طرح آپ کی مخالفت کی. ایک بار یوں ہوا حضرت شمس ؒ کو گوشت بھوننے کے لیے آگ کی ضرورت پیش آئی آپ نے شہزاد محمد کو آگ لانے کے لیے بھیجا مگر پورے شہر میں سے کسی نے بھی آگ نہ دی ایک سنگدل شخص نے اس وجہ سے شہزادے کو اتنا مارا کہ چہرے پر زخموں کے نشان ابھر آئے.واپس آ کر شہزاد نے پورا واقع سنایا تو آپ ؒ کو جلال آ گیاآپ نہایت غصے کی حالت میں خانقاہ سے نکلے گوشت کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا پھر حضرت شمس ؒ نے آسمان پر نظر کر کے سورج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا؛ تو بھی شمس میں بھی شمس اس گوشت کے ٹکڑے کو بھون دے۔ اتنا کہنا تھا کہ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا پھر یہ گرمی اتنی بھڑی کہ اہل ملتان چیخ اٹھے پورا شہر آگ کی بھٹی بن کہ رہ گیا،کچھ باخبر لوگوں نے یہ صورت حال دیکھی تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ کیا چند نادانوں کے جرم کی سزا پورے شہر کو دے ڈالیں گے.آپ ؒ نے فرمایایہ نادان نہیں سفاک ہیںآگ جیسی بے قیمت چیز نہیں دے سکتے میرے محبوب کے چہرے کو زخموں سے سجا دیا آخر اس کا جرم کیا تھا. جانتے ھو یہ کون ھے؟؟؟ بغداد کا شہزادہ میری خاطر بھیک مانگنے گیا لیکن اس کو شہر والوں سے زخم ملے. جب تک سارے شہر کے جسم آبلوں سے نہیں بھر جائیں گے مجھے قرار نہیں آے گا. خدا کے لیے انہیں معاف کر دیں.ملتان کے دانائے راز حضرات نے سفارش کرتے ہوئے کہا.خیر جب خدا کو درمیان میں لے آئے ہو تو معاف کیے دیتا ھوں. آپ ؒ نے فرمایا .پھر سورج سے مخاطب ہوئے اپنی حرارت کم کر دے معلوم نہیں یہ لوگ روز حشر کی گرمی کیسے برداشت کریں گے. آپ کا یہ فرمانا تھا سورج کی حرارت اعتدال پر آ گئی.لوگ اب بھی ملتان کی گرمی کو اسی واقعے کا نتیجہ سمجھتے ھی

سلطان مراد نے ایک رات بڑی گھٹن اور تکلیف میں گزاری ، لیکن وہ اس کا سبب نہ جان سکا

سلطان مراد نے ایک رات بڑی گھٹن اور تکلیف میں گزاری ، لیکن وہ اس کا سبب نہ جان سکا ، اس نے اپنے سیکورٹی انچارج کو بلایا اس کو اپنی بےچینی کی خبر دی ، بادشاہ کی عادت تھی ، کہ وہ بھیس بدل کر عوام کی خفیہ خبرگیری کرتا تھا ، کہا چلو چلتے ہیں اور کچھ وقت لوگوں میں گزارتے ھیں ، شہر کے ایک کنارے پر پہنچے تو دیکھا ایک آدمی گرا پڑا ھے ، بادشاہ نے اسے ھلا کر دیکھا تو مردہ انسان تھا ، لوگ اس کے پاس گزرے جارھے تھے ، بادشاہ نے لوگوں کو آواز دی ادھر آؤ بھئی لوگ جمع ھوگئے اور وہ بادشاہ کو پہچان نہ سکے ، پوچھا کیا بات ھے بادشاہ نے کہا آدمی مرا ھوا ھے اس کو کسی نے کیوں نہیں اٹھایا کون ھے یہ اور اس کے گھر والے کہاں ھیں لوگوں نے کہا یہ زندیق شخص ھے بڑا شرابی اور زانی آدمی تھا ، بادشاہ نے کہا کیا یہ امت محمدیہ میں سے نہیں ھے ؟ چلو اس کو اٹھاؤ اور اس کے گھر لے چلو لوگوں نے میت گھر پہنچا دی اس کی بیوی نے خاوند کی لاش دیکھی تو رونے لگی لوگ چلے گئے بادشاہ اور اس کا سیکورٹی انچارج وہیں کھڑے عورت کا رونا سنتے رھے وہ کہہ رھی تھی ، میں گواہی دیتی ھوں بیشک تو اللہ تعالٰی کا ولی ھے اور نیک لوگوں میں سے ھے سلطان مراد بڑا متعجب ھوا یہ کیسے ولی ھو سکتا ہے لوگ تو اس کے متعلق یہ یہ باتیں کر رھے تھے اور اس کی میت کو ھاتھ لگانے کو تیار نہ تھے ، اس کی بیوی نے کہا مجھے بھی لوگوں پر یہی توقع تھی اصل حقیقت یہ ہے کہ میرا خاوند ھر روز شراب خانہ جاتا جتنی ھو سکے شراب خریدتا اور گھر لا کر گڑھے میں بہا دیتا اور کھتا کہ چلو کچھ تو گناھوں کا بوجھ مسلمانوں سے ھلکا ھوا ، اسی طرح رات کو ایک طوائف کے پاس جاتا اور اس کو ایک رات کی اجرت دے دیتا اور اس کو کھتا کہ اپنا دروازہ بند کرلے کوئی تیرے پاس نہ آئے ، گھر آکر کھتا الحمدللہ آج اس عورت کا اور نوجوان مسلمانوں کے گناھوں کا میں نے کچھ بوجھ ھلکا کر دیا ھے ، لوگ اس کو شراب خانے اور طوائف کے گھر آتا جاتا دیکھتے تھے ، میں اسے کہتی تھی یاد رکھ جس دن تو مر گیا لوگوں نے نہ تجھے غسل دینا ہے نہ تیری نماز جنازہ پڑھنی ھے اور نہ تجھے دفنانا ھے ، وہ مسکرا دیتا اور مجھے کھتا کہ گھبرا مت تو دیکھے گی کہ میرا جنازہ وقت کا بادشاہ ، علماء اور اولیاء پڑھیں گے ، بادشاہ رو پڑا اور کہنے لگا میں سلطان مراد ھوں ، کل ھم اس کو غسل دیں گے ھم اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور ھم اس کی تدفین کریں گے چنانچہ اس کا جنازہ بادشاہ علماء ، اولیاء اور کثیر عوام نے پڑھا ،
 آج ھم بظاہر کچھ دیکھ کر یا محض دوسروں سے سن کر اھم فیصلے کر بیٹھتے ہیں ، اگر ھم دوسروں کے دلوں کے بھید جان لیں تو ھماری زبانیں گونگی ھو جائیں

کیا میں بڑا آدمی بن سکتا ہوں؟


پنجاب یونیورسٹی کا ایک پروفیسر صبح کے وقت اس کے کھوکھے سے چائے پیتا تھا‘ وہ بچے کی محنت پر خوش تھا‘ وہ اسے روز کوئی نہ کوئی نئی بات سکھاتا تھا‘ جہانگیر نے ایک دن پروفیسر سے پوچھا ’’ماسٹر صاحب ! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں‘‘ پروفیسر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے‘‘ جہانگیر کا اگلا سوال تھا ’’کیسے؟ پروفیسر نے اپنے بیگ سے چاک نکالا‘ جہانگیر کے کھوکھے کے پاس پہنچا‘ دائیں سے بائیں تین لکیریں لگائیں‘ پہلی لکیر پر محنت‘ محنت اور محنت لکھا‘ دوسری لکیر پر ایمانداری‘ ایمانداری اور ایمانداری لکھا اور تیسری لکیر پر صرف ایک لفظ ہنر (سکل) لکھا۔ جہانگیر پروفیسر کو چپ چاپ دیکھتا رہا‘ پروفیسر یہ لکھنے کے بعد جہانگیر کی طرف مڑا اور بولا ’’ترقی کے تین زینے ہوتے ہیں‘ پہلا زینہ محنت ہے‘ آپ جو بھی ہیں‘ آپ اگر صبح‘ دوپہر اور شام تین اوقات میں محنت کر سکتے ہیں تو آپ تیس فیصد کامیاب ہو جائیں گے‘ آپ کوئی سا بھی کام شروع کر دیں، آپ کی دکان‘ فیکٹری‘ دفتر یا کھوکھا صبح سب سے پہلے کھلنا چاہئے اور رات کو آخر میں بند ہونا چاہئے‘ آپ کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔ پروفیسر نے کہا’’ ہمارے گرد موجود نوے فیصد لوگ سست ہیں‘ یہ محنت نہیں کرتے‘ آپ جوں ہی محنت کرتے ہیں آپ نوے فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر دس فیصد محنتی لوگوں میں آ جاتے ہیں‘ آپ ترقی کیلئے اہل لوگوں میں شمار ہونے لگتے ہیں‘ اگلا مرحلہ ایمانداری ہوتی ہے‘ ایمانداری چار عادتوں کا پیکج ہے‘ وعدے کی پابندی‘ جھوٹ سے نفرت‘ زبان پر قائم رہنا اوراپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔ آپ محنت کے بعد ایمانداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لو‘ وعدہ کرو تو پورا کرو‘ جھوٹ کسی قیمت پر نہ بولو‘ زبان سے اگر ایک بار بات نکل جائے تو آپ اس پر ہمیشہ قائم رہو اور ہمیشہ اپنی غلطی‘ کوتاہی اور خامی کا آگے بڑھ کر اعتراف کرو‘ تم ایماندار ہو جاؤ گے۔ کاروبار میں اس ایمانداری کی شرح 50 فیصد ہوتی ہے‘
آپ پہلا تیس فیصد محنت سے حاصل کرتے ہیں‘ آپ کو دوسرا پچاس فیصد ایمانداری دیتی ہے اور پیچھے رہ گیا 20 فیصد تو یہ 20 فیصد ہنر ہوتا ہے‘ آپ کا پروفیشنل ازم‘ آپ کی سکل اور آپ کا ہنر آپ کو باقی 20 فیصد بھی دے دے گا‘ آپ سو فیصد کامیاب ہو جاؤ گے‘‘۔ پروفیسر نے جہانگیر کو بتایا۔ ’’لیکن یہ یاد رکھو ہنر‘ پروفیشنل ازم اور سکل کی شرح صرف 20 فیصد ہے اور یہ 20 فیصد بھی آخر میں آتا ہے‘ آپ کے پاس اگر ہنر کی کمی ہے تو بھی آپ محنت اور ایمانداری سے 80 فیصد کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا آپ بے ایمان اور سست ہوں اور آپ صرف ہنر کے زور پر کامیاب ہو جائیں۔ آپ کو محنت ہی سے سٹارٹ لینا ہو گا‘ ایمانداری کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنانا ہو گا’ آخر میں خود کو ہنر مند ثابت کرنا ہوگا‘‘۔ پروفیسر نے جہانگیر کو بتایا۔ “میں نے دنیا کے بے شمار ہنر مندوں اور فنکاروں کو بھوکے مرتے دیکھا‘ کیوں؟ کیونکہ وہ بے ایمان بھی تھے اور سست بھی’ اور میں نے دنیا کے بے شمار بےہنروں کو ذاتی جہاز اڑاتے دیکھا‘ کیوں؟
’تم ان تین لکیروں پر چلنا شروع کر دو‘ تم آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگو گے‘‘۔ جہانگیر نے لمبا سانس لیا اور بولا ’’میں نے چاک سے بنی ان تین لکیروں کو اپنا مذہب بنا لیا اور میں 45 سال کی عمر میں ارب پتی ہو گیا‘‘۔ جہانگیر نے بتایا ‘کھوکھے کی وہ دیوار اور اس دیوار کی وہ تین لکیریں آج بھی میرے دفتر میں میری کرسی کے پیچھے لگی ہیں‘
میں دن میں بیسیوں مرتبہ وہ لکیریں دیکھتا ہوں اور پروفیسر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘‘۔ جہانگیر خاموش ہو گیا‘ سورج نے جھیل میں ڈبکی لگا دی‘ شام رات میں تبدیل ہونے لگی‘ جہانگیر کے گھر سے شام کا منظر بہت خوبصورت تھا‘ گھر کی ساری کھڑکیاں پینٹنگ بن چکی تھیں اور ہر پینٹنگ منہ کھول کر سانس لے رہی تھی‘ جہانگیر کی کامیابی کی تین لکیروں کی طرح ۔

کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا جس نے دس جنگلی کتے پالے ہوئے تھے,


کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا جس نے دس جنگلی کتے پالے ہوئے تھے, اس کے وزیروں میں سے جب بھی کوئی وزیر غلطی کرتا بادشاہ اسے ان کتوں کے آگے پھنکوا دیتا کتے اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر مار دیتے-
 ایک بار بادشاہ کے ایک خاص وزیر نے بادشاہ کو غلط مشورہ دے دیا جو بادشاہ کو بلکل پسند نہیں آیا اس نے فیصلہ سنایا کہ وزیر کو کتوں کے آگے پھینک دیا جائے-
 وزیر نے بادشاہ سے التجا کی کہ حضور میں نے دس سال آپ کی خدمت میں دن رات ایک کئے ہیں اور آپ ایک غلطی پر مجھے اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں, آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن میری بےلوث خدمت کے عوض مجھے آپ صرف دس دنوں کی مہلت دیں پھر بلاشبہ مجھے کتوں میں پھنکوا دیں-
بادشاہ یہ سن کر دس دن کی مہلت دینے پر راضی ہو گیا-
 وزیر وہاں سے سیدھا رکھوالے کے پاس گیا جو ان کتوں کی حفاظت پر مامور تھا اور جا کر کہا مجھے دس دن ان کتوں کے ساتھ گزارنے ہیں اور ان کی مکمل رکھوالی میں کرونگا, رکھوالا وزیر کے اس فیصلے کو سن کر چونکا لیکن پھر اجازت دے دی-
 ان دس دنوں میں وزیر نے کتوں کے کھانے پینے, اوڑھنے بچھونے, نہلانے تک کے سارے کام اپنے ذمے لیکر نہایت ہی تندہی کے ساتھ سر انجام دیئے-
 دس دن مکمل ہوئے بادشاہ نے اپنے پیادوں سے وزیر کو کتوں میں پھنکوایا لیکن وہاں کھڑا ہر شخص اس منظر کو دیکھ کر حیران ہوا کہ آج تک نجانے کتنے ہی وزیر ان کتوں کے نوچنے سے اپنی جان گنوا بیٹھے آج یہی کتے اس وزیر کے پیروں کو چاٹ رہے ہیں-
بادشاہ یہ سب دیکھ کر حیران ہوا اور پوچھا کیا ہوا آج ان کتوں کو ؟
 وزیر نے جواب دیا, بادشاہ سلامت میں آپ کو یہی دکھانا چاہتا تھا میں نے صرف دس دن ان کتوں کی خدمت کی اور یہ میرے ان دس دنوں میں کئے گئے احسانات بھول نہیں پا رہے, اور یہاں اپنی زندگی کے دس سال آپ کی خدمت کرنے میں دن رات ایک کر دیئے لیکن آپ نے میری ایک غلطی پر میری ساری زندگی کی خدمت گزاری کو پس پشت ڈال دیا...
بادشاہ کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا,
اس نے وزیر کو
 اٹھوا کر مگرمچھوں کے تالاب میں پھنکوا دیا .....

زیادہ ذہین ہونے کی آٹھ نشانیاں

پہلی نشانی ہے بہت زیادہ سوچنا۔ جو انسان بہت زیادہ سوچ بچار کرتا ہے اور خلا میں گھورتا رہتا ہے وہ پاگل اور بے حد ذہین ہوتا ہے۔ آئن سٹائن...